Orhan

Add To collaction

سنگ مر مر

سنگ مر مر
 از قلم اسامہ رحمن مانی 
قسط نمبر8

وہ کوئی جواب نہ دے پائی...
لیکن فیصل اس کا جواب جان چکا تھا کیوں کہ اس نے 10 منٹ گزرنے کے بعد بھی اسے اب تک بلاک نہیں کیا تھا...
آپکا نام کیا ہے...؟ فیصل نے پوچھا
ایمان...
کیا کرتی ہیں آپ...؟
بی ایس کر رہی ہوں...
اور آپ؟ اس بار اس نے فیصل سے پوچھا...
لگتا تھا اس کی جھجھک کچھ کم ہو چکی ہے...
پیراماؤنٹ ہوٹل کا نام سنا ہے...؟
جی سنا ہے بلکہ دیکھا ہے...
وہ ہوٹل میرا ہے...
یہ سن کر اسے مزید حیرت ہوئی کہ شہر کے صف اول کے ہوٹل کا مالک اس میں دلچسپی لے رہا تھا جبکہ اس کے اپنے والد تو ایک کالج کے کلرک تھے... 
واہ...پھر تو آپ بہت خوش رہتے ہوں گے...
یہ میسج فیصل کو عجیب سا لگا...
خوش ؟...وہ کیوں
اس لیے کہ آپ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔۔۔
تو آپ کیوں نہیں کر سکتیں؟
کاش میں بھی کر سکتی۔۔۔
میرے کزن سے رشتہ ہو رہا ہے میرا اس سنڈے کو۔۔۔
یہ بات فیصل پر بجلی بن کر گری۔۔۔ایک ہفتہ باقی تھا۔۔۔
اس ایک ہفتے میں اپنے والدین کو راضی کرنا اور پھر اس سے بڑا مسئلہ ایمان کے والدین کو رشتے کے لیے راضی کرنا تھا۔۔۔
یہ سب بہت مشکل نظر آ رہا تھا۔۔۔
میں چاہتا ہوں کہ۔۔۔
اس نے میسج لکھ کر مٹا دیا۔۔۔
پھر دوبارہ لکھا۔۔۔میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔۔۔آپ کل ہوٹل آئیے نا۔۔۔
کیا؟ نہیں نہیں۔۔۔میں ایسے نہیں آ سکتی۔۔۔سوری۔۔۔ اس نے صاف انکار کر دیا
مجھے آپ سے بات کرنی ہے اور۔۔۔یوں میسج پہ بات نہیں ہو سکتی۔۔۔
ایمان نے کوئی جواب نہ دیا۔۔۔
کیا کہا انہوں نے۔۔۔نور نے پوچھا
ہوٹل بلایا ہے۔۔۔ان کا اپنا ہوٹل ہے۔۔۔پیراماؤنٹ ہوٹل۔۔۔ ایمان نے بتایا۔۔۔
تو چلے جاتے ہیں نا۔۔۔کیا ہوا۔۔۔
تم پاگل ہو گئی ہو کیا۔۔۔
نہیں۔۔۔مگر میں جانتی ہوں آپ بھی جانا چاہتی ہیں۔۔۔امی کو کہہ دیں گے کسی فرینڈ کی طرف جانا ہے۔۔۔
وہ خاموش رہی۔۔۔
چلیں کل پکا۔۔۔بس۔۔۔نور یہ کہہ کر چل دی۔۔۔
اس طرح کسی انجان شخص پر اعتبار کیسے کروں۔۔۔
لیکن وہ مجھے ہر لحاظ سے قابلِ اعتبار لگ رہے ہیں۔۔۔
کیا مجھے جانا چاہیے؟۔۔۔یا نہیں؟ وہ سوچوں کے گرداب میں پھنس گئی تھی۔۔۔
___________________________
فیصل۔۔۔آرزو کا میسج آیا۔۔۔
اس نے جواباً ایک سوالیہ نشان بنا کر ریپلائے کر دیا۔۔۔
تم نے مِیٹ اپ کا کہا تھا۔۔۔
سوری آرزو۔۔۔اس وقت میرے پاس ٹائم نہیں ہے۔۔۔بزی ہوں آج کل۔۔۔
اس کا ٹکا سا جواب سن کر آرزو مزید پریشان ہو گئی۔۔۔
یااللہ فیصل کے دل میں میرے لیے محبت ڈال دے۔۔۔
اسے یہ احساس دلا دے کہ میں اسے چاہتی ہوں۔۔۔
وہ میری محبت کو سمجھے۔۔۔
اس کے دل میں بھی میرے لیے پیار جگا دے۔۔۔
وہ بیچاری کہاں جانتی تھی کہ فیصل کے دل میں کسی اور کے لیے محبت جاگ چکی ہے۔۔۔
___________________________
وہ رات فیصل نے انتہائی بے چینی میں بسر کی۔۔۔
اگلے روز وہ ایک اور نئی امید کے ساتھ ہوٹل جا رہا تھا۔۔۔
دن تک جانے کس طرح اس نے انتظار کیا۔۔۔
دن سے شام ہو گئی۔۔۔
وہ اپنے کمرے میں ٹہلنے لگا۔۔۔
اور ساتھ گھڑی کی بڑھتی سوئیوں کو دیکھنے لگا۔۔۔
___________________________
امی۔۔۔مجھے زارا کی طرف جانا ہے۔۔۔اس کی طبیعت نہیں صحیح۔۔۔
کالج بھی نہیں آئی تھی آج۔۔۔ایمان نے ساجدہ بیگم سے اجازت چاہی۔۔۔
اس ٹائم۔۔۔شام میں؟۔۔۔اچھا جلدی آ جانا واپس۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔۔میں آ جاؤں گی۔۔۔
وہ نور کو ساتھ لیے ہوٹل جا رہی تھی۔۔۔
ہوٹل اس کے گھر سے زیادہ دور نہ تھا۔۔۔
فیصل پہلے بتا چکا تھا اس کا آفس دوسری منزل پر ہے۔۔۔
وہ سیدھا اوپر جانے لگیں۔۔۔
رکیے آپ کو کس سے ملنا ہے۔۔۔
گارڈ نے ان کو وہیں روک دیا۔۔۔
فیصل صاحب سے۔۔۔
نور کے بتانے پر وہ تیزی سے اوپر گیا اور فوراً ہی واپس آ کر جانے کی اجازت دی۔۔۔
آؤ۔۔۔ایمان۔۔۔میں تمہارا بہت شدت سے انتظار کر رہا تھا۔۔۔
ایمان نے حیرت سے فیصل کو دیکھا کہ اچانک وہ آپ سے تم پر کیسے آ گیا۔۔۔فیصل مسکرا دیا۔۔۔
کب تک آپ ہی کہتا رہوں گا۔۔۔اچھا خیر بیٹھو۔۔۔بتاؤ کیا لو گی۔۔۔میں ابھی تمہارے سامنے حاضر کرتا ہوں۔۔۔
نہیں کچھ نہیں۔۔۔میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔۔۔مجھے واپس جانا ہے۔۔۔آپ نے بلایا تو۔۔۔
تم کھنچی چلی آئیں۔۔۔فیصل نے اس کا جملہ مکمل کیا۔۔۔
ایک بار پھر ایمان نے نظر اٹھائی وہ اس کی آنکھوں میں ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔
اس بار وہ نظر نہ جھکا سکی۔۔۔کچھ لمحے بعد ایمان نے کہا۔۔۔آپ میری آنکھوں میں کیا دیکھ رہے ہیں؟
دیکھ نہیں رہا۔۔۔پڑھ رہا ہوں۔۔۔جو کچھ ان میں لکھا ہے۔۔۔
اس وقت بھی فیصل نے بس اس کے ہونٹوں کی حرکت سے اندازہ لگایا تھا کہ وہ مسکرائی ہے۔۔۔
مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے۔۔۔اس نے بالکل صاف الفاظ میں کہا تو ایمان ہچکچا گئی۔۔۔
تو۔۔۔میں۔۔۔ کیا کروں۔۔۔اس کا بے تکا سا جواب سن کر فیصل ہلکا سا ہنس دیا۔۔۔تم جو چاہے کرو۔۔۔ویسے۔۔۔تم اپنے کزن سے شادی کیوں نہیں کرنا چاہتیں؟
وہ اچھا لڑکا نہیں ہے۔۔۔لیکن امی ابو کو یقین نہیں آتا میری باتوں کا۔۔۔
فکر نہ کرو۔۔۔میں انہیں منا لوں گا۔۔۔
اگر وہ مان بھی گئے تو۔۔۔ایمان اتنا کہہ کر چپ ہو گئی۔۔۔
تو؟ اس نے گردن کو ہلکی سی جنبش دیتے ہوئے پوچھا۔۔۔
عمیر بہت ضدی ہے۔۔۔وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔۔۔اور آج تک جس چیز کے لیے اس نے ضد کی۔۔۔یا اپنی انا کا مسئلہ بنایا۔۔۔وہ اسے حاصل کر کے ہی رہا۔۔۔
اللہ خیر کرے گا۔۔۔تم ٹینشن نہ لو۔۔۔آج میں گھر میں بات کروں گا۔۔۔
اچھا۔۔۔مجھے اب جانا ہے۔۔۔وہ یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔میں تم سے رات کو رابطہ کروں گا۔۔۔اس نے جاتے ہوئے فیصل کی آواز سنی۔۔۔

   1
0 Comments